کچھ عقل بھی رکھتا ہے جنوں زاد ہمارا
اب عشق میں پاگل نہیں فرہاد ہمارا
خیموں سے اُبھرنے لگیں ماتم کی صدائیں
اور ہم سے خفا ہو گیا سجاد ہمارا
اِک پھول کے کھلنے سے بہت پہلے جہاں میں
اِک خواب ہوا جاتا ہے...
کہیں تو بس اک خیال سا ہے کہیں ہیں زندہ مثال چہرے
کتابِ ہستی کے ہر ورق پر بکھر گئے لازوال چہرے
کہیں سراپا مُحبتیں ہیں ،کہیں ہیں جاں کا وبال چہرے
ہماری عظمت کی داستاں بھی ،ہمارے دل کا زوال چہرے
ہے...
تمام سیاروں کو جیسے مہر سے جوڑا ہے
مری جبیں کو ترے سنگِ در سے جوڑا ہے
خدا نے خود کو بظاہر چُھپا کے رکھا ہے
ہمارے دل کو نہ جانے کدھر سے جوڑا ہے
وصال و ہجر کی ترتیب ہی الٹ دی...
دریا کی طرف دیکھ لو اک بار مرے یار
اک موج کہ کہتی ہے مرے یار مرے یار
ویرانیِ گُلشن پہ ہی معمور ہے موسم
مٹی سے نکلتے نہیں اشجار مرے یار
کیا خاک کسی غیر پہ دل کو ہو بھروسا
اپنے بھی ہوئے...
ایسے کُچھ لوگ بھی مٹی پہ اُتارے جائیں
دیکھ کر جن کو خدوخال سنوارے جائیں
ایک ہی وصل کی تاثیر رہے گی قائم
کون چاہے گا یہاں سال گزارے جائیں
آنکھ ہے تیری کہ صُورت کوئی قوسین کی ہے
درمیاں آکے کہیں لوگ نہ...
اس نے بخشے ہیں خد و خال مجھے
اور کیا چاہیے مثال مجھے
اب تو تسخیر کرکے چھوڑے گا
دل میں چُبھتا ہُوا سوال مجھے
بے خبر خُود سے ہو گیا ہُوں مَیں
ڈھونڈتا پھر رہا ہے حال مجھے
زندگی مَیں بکھر نہ جاؤں کہیں
یوں...
میں نے یہ سوچ رکھا تھا اس بار مُختلف
اب مجھ کو شعر کہنا ہے بس یار مُختلف
اچھا ہے خُوب رو ہے تِرا دوست میرے دوست
میرا حبیب رکھتا ہے، معیار مُختلف
کاسہ جو توڑ دے تو اسے مُعتَبَر گِنیں
تُو جس سے...
ستم گر یہ کیسی سزا چل رہی ہے
حیات اب بہ سُوئےِ قضا چل رہی ہے
وہ ہر لحظہ مشقِ ستم کر رہے ہیں
یہاں اب بھی رسمِ وفا چل رہی ہے
رہوں جامِ قُربت سے محروم کیونکر
مری چشم تیری ادا چل رہی...
چشمِ خواہش سے بھی کچھ حُسن شناسائی ہو
کچھ تو اے جانِ غزَل دل کی پذیرائی ہو
تم نے تو آنکھ ملانا ہے ملاتے رہنا
کونسا میکدہ کھولا ہے کہ رسوائی ہو
بہتی خوشبو کا نیا لَمس سمجھ میں آیا
جوں صبا کوچہءجاناں سے...
پیکرِ حُسن بَصَد صِدق و صِفا رکھا ہے
عکس آئینے میں آئینہ نُما رکھا ہے
خود نمائ کو ہی تخلیق کیے سارے جہاں
اور پھر دل میں مرے خود کو بسا رکھا ہے
دعوے جنت کے کیے جاتے ہوصاحب ہر دم
دیکھ لو نامئہ...