Dilawar Ali Aazar and 54 others
خدا نے سُکھ کو مگر اپنے گھر سے جوڑا ہے
تمام سیاروں کو جیسے مہر سے جوڑا ہے
مری جبیں کو ترے سنگِ در سے جوڑا ہے
خدا نے خود کو بظاہر چُھپا کے رکھا ہے
ہمارے دل کو نہ جانے کدھر سے جوڑا ہے
وصال و ہجر کی ترتیب ہی الٹ دی تھی
اِدھر کا سلسلہ اُس نے اُدھر سے جوڑا ہے
خدا نے سادہ قلم سے بنایا ہم سب کو
ترے وجود کو اپنے ہُنر سے جوڑا ہے
کہ چاند بھی تو ترے حُسن کا بھکاری ہے
تمھارے حُسن کو کس نے قمر سے جوڑا ہے
تمام لزتیں دُنیا کے دل میں رکھی ہیں
خدا نے سُکھ کو مگر اپنے گھر سے جوڑا ہے
تمام مِدحَتیں وقفِ بنامِ احمؐد ہیں
تمام ذِکر کو اُس تاجورؐ سے جوڑا ہے
حسان احمد اعوان
دریا کی طرف دیکھ لو اک بار مرے یار
دریا کی طرف دیکھ لو اک بار مرے یار
اک موج کہ کہتی ہے مرے یار مرے یار
ویرانیِ گُلشن پہ ہی معمور ہے موسم
مٹی سے نکلتے نہیں اشجار مرے یار
کیا خاک کسی غیر پہ دل کو ہو بھروسا
اپنے بھی ہوئے جاتے ہیں اَغیار مرے یار
مقتل سی فضا رہتی ہے اس مُلک میں ہر دم
دیکھے ہیں مناظر کئ خوں بار مرے یار
ہم خاک نشینوں کی یہاں کون سُنے گا
اونچے ہیں بہت خواب کے دربار مرے یار
دیکھو یہ چلن ٹھیک نہیں عشق میں ہرگز
وعدے سے مُکر جاتے ہو ہر بار مرے یار
دو چار ہی الفاظ، محبت سے بھرے ہوں
تو دشت کو کر دیتے ہیں گلزار مرے یار
حسان ،جواں خُوب تری مشقِ سُخن ہے
ہر روز کہے جاتے ہو اشعار مرے یار
حسان احمد اعوان
ایسے کُچھ لوگ بھی مٹی پہ اُتارے جائیں
ایسے کُچھ لوگ بھی مٹی پہ اُتارے جائیں
دیکھ کر جن کو خدوخال سنوارے جائیں
ایک ہی وصل کی تاثیر رہے گی قائم
کون چاہے گا یہاں سال گزارے جائیں
آنکھ ہے تیری کہ صُورت کوئی قوسین کی ہے
درمیاں آکے کہیں لوگ نہ مارے جائیں
اِک جُنوں ہے کہ تُجھے پانا ہے دُنیا میں ہمیں
چاہے اس عشق میں ہم لوگ بھی مارے جائیں
ماہی اُس پار کھڑا آپ کی راہ تکتا ہے
آپ تعظیم کریں اور کنارے جائیں
اب مُیسر نہیں کوئی بھی ٹھکانہ ہم کو
تُم بتاؤ کہ کہاں دوست تُمہارے جائیں
چند شعروں کی ضرورت ہے اُنہیں خاطرِ دوست
وہ بَضِد ہیں کہ وہ اشعار ہمارے جائیں
روشنی چاہیے کُچھ دیر زرا اور ہمیں
چاند رُک جائے یہیں اور ستارے جائیں
حسان احمد اعوان
یوں ہَوا میں تو مت اُچھال مجھے
اس نے بخشے ہیں خد و خال مجھے
اور کیا چاہیے مثال مجھے
اب تو تسخیر کرکے چھوڑے گا
دل میں چُبھتا ہُوا سوال مجھے
بے خبر خُود سے ہو گیا ہُوں مَیں
ڈھونڈتا پھر رہا ہے حال مجھے
زندگی مَیں بکھر نہ جاؤں کہیں
یوں ہَوا میں تو مت اُچھال مجھے
مشقِ غم تا حیات جاری رہی
یوں ملا ہے مرا کمال مجھے
اُنؐ کی اُمت کا میں بھی حصہ ہوں
زندہ رکھتا ہے یہ خیال مجھے
میں بھٹکتا ہوں جب بھی رستے سے
کھینچتا ہے ترا خیال مُجھے
نہیں مایوس اُس کی رحمت سے
بخش دے گا وہ ذوالجلال مجھے
حسان احمد اعوان
کس نے کہا کہ آئے گی سرکار مُختلف
میں نے یہ سوچ رکھا تھا اس بار مُختلف
اب مجھ کو شعر کہنا ہے بس یار مُختلف
اچھا ہے خُوب رو ہے تِرا دوست میرے دوست
میرا حبیب رکھتا ہے، معیار مُختلف
کاسہ جو توڑ دے تو اسے مُعتَبَر گِنیں
تُو جس سے مانگتا ہے وہ دربار مُختلف
اب کے بھی انتخاب کریں گے پرانے لوگ
کس نے کہا کہ آئے گی سرکار مُختلف
میں نے تمام لفظ لکھے احتیاط سے
میرے لیے ہو داد کا معیار مُختلف
کتنے ہیں رنگ آتے نظر تجھ کو اک جگہ
اک آدمی کے ہوتے ہیں کردار مُختلف؟
سب کو ہے تیرے تیرِ نظر کا ہی انتظار
اس میکدے میں سب ہیں سزاوار مُختلف
حائل میرا وجود ہوا اُس کی راہ میں
پھر اُس نے کر دیا یہ عجب وار مُختلف
حسان احمد اعوان
ستم گر یہ کیسی سزا چل رہی ہے
ستم گر یہ کیسی سزا چل رہی ہے
حیات اب بہ سُوئےِ قضا چل رہی ہے
وہ ہر لحظہ مشقِ ستم کر رہے ہیں
یہاں اب بھی رسمِ وفا چل رہی ہے
رہوں جامِ قُربت سے محروم کیونکر
مری چشم تیری ادا چل رہی ہے
مریضِ مُحبت رہا ہوں ازل سے
تری دید اب بھی دوا چل رہی ہے
یونہی بد گماں ہوں میں اپنے عمل پر
مرا فعل، تیری رضا چل رہی ہے
ہے لگتا تری زُلف میں خَم سا آیا
تبھی یہ معطر فضا چل رہی ہے
حسان احمد اعوان
چشمِ خواہش سے بھی کچھ حُسن شناسائی ہو
چشمِ خواہش سے بھی کچھ حُسن شناسائی ہو
کچھ تو اے جانِ غزَل دل کی پذیرائی ہو
تم نے تو آنکھ ملانا ہے ملاتے رہنا
کونسا میکدہ کھولا ہے کہ رسوائی ہو
بہتی خوشبو کا نیا لَمس سمجھ میں آیا
جوں صبا کوچہءجاناں سے گزر آئی ہو
یہ جو اب راکھ ہوئے جاتے ہیں یادوں کے چراغ
اِک سبب ہو بھی تو سکتا ہے کہ تنہائی ہو
کیوں نہ اب میری نظر ُدور کے جلوے دیکھے
تُم مری جان ، مرا منبعِ بینائی ہو
حسان احمد اعوان