اپنی قسمت کی جب خبر لوں گا – حسان احمد اعوان – Hassaan Ahmad Awan
میں یونہی کہاں دیدہء حیران سے نکلا – حسان احمد اعوان – Hassaan Ahmad Awan
ٹوٹا ہے کوئی خواب یا جاگے ہیں خواب میں – حسان احمد اعوان – Hassaan Ahmad Awan
روح تقدیر کے آرے پہ پڑی رہتی ہے – حسان احمد اعوان – Hassaan Ahmad Awan
روح تقدیر کے آرے پہ پڑی رہتی ہے
سانس بھی جسم کنارے پہ پڑی رہتی ہے
شعر الہام نہیں ہوتا ہے ہر دم مُجھ کو
شاعری وقت کے دھارے پہ پڑی رہتی ہے
دور سے دیکھ کے مدھم نظر آتا ہے مجھے
روشنی جیسے ستارے پہ پڑی رہتی ہے
اپنے مطلب کو بدن میرا جلاتے ہیں یہ دوست
جیسے اِک سیخ اَنگارے پہ پڑی رہتی ہے
طُول بیماری کو دیتی ہیں دوائیں ساری
اور صحت بھی گُزارے پہ پڑی رہتی ہے
یاد آتے ہو تو پھر اشک رواں ہوتے ہیں
اور مری آنکھ اِشارے پہ پڑی رہتی ہے
میرے ملنے سے وہ تجسیم نہیں ہو سکتا
میں ہوں اِک اینٹ جو گارے پہ پڑی رہتی ہے
پہلے کُچھ سال جوانی میں گزر جاتے ہیں
باقی کی عُمر سہارے پہ پڑی رہتی ہے
مجھ کو حسان غزل دور سے یوں دیکھتی ہے
جیسے اِک آنکھ جو پیارے پہ پڑی رہتی ہے
حسان احمد اعوان
آنکھ سے خون بہاؤ تو کہیں نکلے گی – حسان احمد اعوان – Hassaan Ahmad Awan
سوچ میں کیسے کوئی ڈھنگ نیا آتا ہے – حسان احمد اعوان – Hassaan Ahmad Awan
خون میں اشک ملانے سے نشہ ٹُوٹتا ہے – حسان احمد اعوان – Hassaan Ahmad Awan
خون میں اشک ملانے سے نشہ ٹُوٹتا ہے
اور پھر اس کو بہانے سے نشہ ٹُوٹتا ہے
شعر جس رنگ میں ہوتا ہے اسے ہونے دو
اِس نئے اور پُرانے سے نشہ ٹُوٹتا ہے
کوئی روٹھے تو منانے میں مزہ ہے صاحب
کون کہتا ہے ستانے سے نشہ ٹُوٹتا ہے
آنکھ کو آنکھ پِلائے تو نشہ باقی رہے
ہونٹ سے پیاس بُجھانے سے نشہ ٹُوٹتا ہے
بات کُچھ ایسی کہو جو کہ مرے دل پہ لگے
دوست اِس جھوٹے بہانے سے نشہ ٹُوٹتا ہے
خاک سے میری نئے جسم بناتے رہنا
چاک کو خالی گُھمانے سے نشہ ٹُوٹتا ہے
دھیمی لَو ہو تو مزہ آتا ہے جلنے میں مگر
لَو کو اور بڑھانے سے نشہ ٹوٹتا ہے
حسان احمد اعوان
تُو مری نیند سی جڑی ہوئی ہے – حسان احمد اعوان – Hassaan Ahmad Awan Poetry
خواب میں بھی در و دیوار سے ڈر جاتا ہوں – حسان احمد اعوان- Hassaan Ahmad Awan
خواب میں بھی در و دیوار سے ڈر جاتا ہوں
میں سکونت کے ان آثار سے ڈر جاتا ہوں
کیا سے کیا خواب مرے دل میں نہاں ہے لیکن
مسئلہ یہ ہے کہ اظہار سے ڈر جاتا ہوں
اور تو کچھ بھی مقابل ہو میں ڈٹ جاؤں مگر
اک تری شوخی گفتار سے ڈر جاتا ہوں
جس کی آواز فلک چیر ، خدا تک پہنچے
ایسے لاچار سے بیمار سے ڈر جاتا ہوں
جیت لیتا ہوں میں دل پھینک کے بازی اپنی
کون کہتا ہے کہ میں ہار سے ڈر جاتا ہوں
بوجھ پڑتا ہے طبیعت پر خزاں دیکھوں تو
ورق الٹے تو میں اخبار سے ڈر جاتا ہوں
وہ محبت ہو کہ ہو دشمنی کرتا نہیں میں
میں کہ حسان ہر آزار سے ڈر جاتا ہوں
حسان احمد اعوان