Saturday, December 21, 2024
More
    Home Blog Page 3

    اپنی قسمت کی جب خبر لوں گا – حسان احمد اعوان – Hassaan Ahmad Awan

    0
    اپنی قسمت کی جب خبر لوں گا
    میں تُجھے اپنے نام کر لوں گا
    میں محبت کروں گا اور اُس میں
    ہجر آیا تو صبر کر لوں گا
    مجھکو آسان راستہ نہ دِکھا
    میں تو مُشکل کوئی سَفَر لوں گا
    فن کو میں توڑ دوں گا حصّوں میں
    اپنی مرضی کا اِک ہُنر لوں گا
    بیج دنیا میں بو کے جاؤں گا میں
    اور جنت میں اِک شَجَر لوں گا
    میں محبت بسانے آیا ہوں
    میں تو ہر دل میں اپنا گَھر لوں گا
    چھوڑ دو میرے حال پر مُجھ کو
    پھر کسی روز میں سَنوَر لوں گا
    کتنی آوازیں اُٹھنے والی ہیں
    اور میں کتنے کان دَھر لوں گا
    میرے مالک مَیں بے ہُنر تو نہیں
    کام دو گے تو کام کر لوں گا
    راس دنیا مجھے نہیں آتی
    بانٹ دوں گا اُدھر جدھر لوں گا
    دل کی بستی اُجاڑ کر خود ہی
    اور پھر حُسن کا نگر لوں گا
    اُس کا میرا حساب باقی ہے
    تھوڑی تاخیر سے مگر لوں گا
    جی رہا ہوں کہ جینا پڑتا ہے
    مرنا پڑ جائے گا تو مرلوں گا
    کون وعدہ نبھائے گا حسان
    اب بہت جلد میں مکر لوں گا
    حسان احمد اعوان
     

    میں یونہی کہاں دیدہء حیران سے نکلا – حسان احمد اعوان – Hassaan Ahmad Awan

    0
    میں یونہی کہاں دیدہء حیران سے نکلا
    اِک راہ بناتے ہوئے امکان سے نکلا
    تا عمر علاقہ رہا تجھ حسن سے مجھ کو
    اِک تیرا تعلق مرے دیوان سے نکلا
    جھوٹی کوئی شہرت ہی مجھے راس نہ آئی
    میں اِس لیے اِس حلقہءپہچان سے نکلا
    میں نے جو کہیں رکھا تھا اور بھول گیا میں
    آخر کو وہی دل ، دلِ مہمان سے نکلا
    ہاتھوں میں لیے سوچ میں گُم ہوں کہ سرِ دشت
    یہ تار بھلا کیسے گریبان سے نکلا
    وہ نقش عجب نقش تھا جو خود دمِ تخلیق
    یاقوت میں دیکھا کبھی مرجان سے نکلا
    مدھم سی خموشی مرے وجدان میں آئی
    اور تیز اندھیرا مرے سامان سے نکلا
    اِک بار مِلا جو بھی وہی بس گیا اس میں
    یہ ظرف یقیناً دلِ حسان سے نکلا
    حسان احمد اعوان

    ٹوٹا ہے کوئی خواب یا جاگے ہیں خواب میں – حسان احمد اعوان – Hassaan Ahmad Awan

    0
    ٹوٹا ہے کوئی خواب یا جاگے ہیں خواب میں
    خواہش نمو کی لے گئی ہَم کو سراب میں
    پڑھتے ہی اس کو اپنی طبیعت اُلجھ گئی
    جاری یہ شعر کس نےکیا تھا نصاب میں
    اِس دور میں بھی عشق اک ایسا سوال ہے
    نفرت ہی آ رہی ہے برابر جواب میں
    دنیا میں جل پری ہو  تو جنت میں حور ہو
    ہیں شیخ کے مطالبے کارِ ثواب میں
    تخلیق ہُوں میں ایسی  کہ ثانی نہیں کوئی
    ایسا ہی ذکر آیا ہے میرا کتاب میں
    نالہ مرا سُرُور سے آگے کی چیز ہے
    آواز میری بجتی ہے  چنگ و رباب میں
    میں نے تمام عُمر محبت کمائی ہے
    پلڑا یہ بھاری رکھے گی میرا حساب میں
    حسان احمد اعوان

    روح تقدیر کے آرے پہ پڑی رہتی ہے – حسان احمد اعوان – Hassaan Ahmad Awan

    0

    روح تقدیر کے آرے پہ پڑی رہتی ہے
    سانس بھی جسم کنارے پہ پڑی رہتی ہے
    شعر الہام نہیں ہوتا ہے ہر دم مُجھ کو
    شاعری وقت کے دھارے پہ پڑی رہتی ہے
    دور سے دیکھ کے مدھم نظر آتا ہے مجھے
    روشنی جیسے ستارے پہ پڑی رہتی ہے
    اپنے مطلب کو بدن میرا جلاتے ہیں یہ دوست
    جیسے اِک سیخ اَنگارے پہ پڑی رہتی ہے 
    طُول بیماری کو دیتی ہیں دوائیں ساری
    اور صحت بھی گُزارے پہ پڑی رہتی ہے
    یاد آتے ہو تو پھر اشک رواں ہوتے ہیں
    اور مری آنکھ اِشارے پہ پڑی رہتی ہے
    میرے ملنے سے وہ تجسیم نہیں ہو سکتا
    میں ہوں اِک اینٹ جو گارے پہ پڑی رہتی ہے
    پہلے کُچھ سال جوانی میں گزر جاتے ہیں
    باقی کی عُمر سہارے پہ پڑی رہتی ہے
    مجھ کو حسان غزل دور سے یوں دیکھتی ہے
    جیسے اِک آنکھ جو پیارے پہ پڑی رہتی ہے

    حسان احمد اعوان

    آنکھ سے خون بہاؤ تو کہیں نکلے گی – حسان احمد اعوان – Hassaan Ahmad Awan

    0
    آنکھ سے خون بہاؤ تو کہیں نکلے گی
    ورنہ یہ  ہجر کی تلخی  تو نہیں نکلے گی
    میل کھاتا ہے ترا چہرہ بھی مہتاب کے ساتھ
    آنکھ بھی تیری ستاروں سے قریں نکلے گی
    اپنا لہجہ بھی نیا لاؤ نئے قافیے بھی
    شعر بھی اپنا کہو گے تو زمیں نکلے گی
    سلسلہ جینے کا قائم ہے مرا جس در سے
    سانس بھی میری اگر نکلی وہیں نکلے گی
    ایک عرصے سے ہی دونوں کی بڑی یاری ہے
    روح اب جسم سے نکلی تو حزیں نکلے گی
    دیکھ لینا کبھی حسان اگر آنکھ کھلی
    زندگی خواب جزیرے کی مکیں نکلے گی
    حسان احمد اعوان

    سوچ میں کیسے کوئی ڈھنگ نیا آتا ہے – حسان احمد اعوان – Hassaan Ahmad Awan

    0
    سوچ میں کیسے کوئی ڈھنگ نیا آتا ہے
    دل کی دُنیا میں اگر رنگ نیا آتا ہے
    پہلی اِک موج کنارے سے جو ٹکراتی ہے
    دوسری موج میں تب اَنگ نیا آتا ہے
    میں کہ دریا ہوں جہاں قحط پڑا ہو تو وہاں
    میرے مُڑ جانے سے آہنگ نیا آتا ہے
    کج نظر سوچ کو محدود کیے رکھتے ہیں
    ایک ہٹتا ہے تو اِک زَنگ نیا آتا ہے
    کُچھ تراکیب مری اپنی بنائی ہوئی ہیں
    میرے الفاظ میں فَرہَنگ نیا آتا ہے
    حسان احمد اعوان

    خون میں اشک ملانے سے نشہ ٹُوٹتا ہے – حسان احمد اعوان – Hassaan Ahmad Awan

    0

    خون میں اشک ملانے سے نشہ ٹُوٹتا ہے
    اور پھر اس کو بہانے سے نشہ ٹُوٹتا ہے
    شعر جس رنگ میں ہوتا ہے اسے ہونے دو
    اِس نئے اور پُرانے سے نشہ ٹُوٹتا ہے
    کوئی روٹھے تو منانے میں مزہ ہے صاحب
    کون کہتا ہے ستانے سے نشہ ٹُوٹتا ہے
    آنکھ کو آنکھ پِلائے تو نشہ باقی رہے
    ہونٹ سے پیاس بُجھانے سے نشہ ٹُوٹتا ہے
    بات کُچھ ایسی کہو جو کہ مرے دل پہ لگے
    دوست اِس جھوٹے بہانے سے نشہ ٹُوٹتا ہے
    خاک سے میری نئے جسم بناتے رہنا
    چاک کو خالی گُھمانے سے نشہ ٹُوٹتا ہے
    دھیمی لَو ہو تو مزہ آتا ہے جلنے میں مگر
    لَو کو اور بڑھانے سے نشہ ٹوٹتا ہے

    حسان احمد اعوان

    تُو مری نیند سی جڑی ہوئی ہے – حسان احمد اعوان – Hassaan Ahmad Awan Poetry

    0
    آپ کے خواب سے بندھا ہوا ہوں
    عکسِ مہتاب سے بندھا ہوا ہوں
    تُو مری نیند سی جڑی ہوئی ہے
    میں ترے خواب سے بندھا ہوا ہوں
    اُس کی آنکھیں پکارتی ہیں مجھے
    اور میں آداب سے بندھا ہوا ہوں
    لیے جاتی ہے دل کو موجِ ستم
    غم کے سیلاب سے بندھا ہوا ہوں
    میرا ہر فعل ہے ترا پابند
    یعنی میں باب سے بندھا ہوا ہوں
    تیرے در سے جُڑا ہوں ایسے کہ
    جیسے محراب سے بندھا ہوا ہوں
    تیری سنگت پہ ناز ہے حسان
    جیسے سُرخاب سے بندھا ہوا ہوں
    حسان احمد اعوان

    خواب میں بھی در و دیوار سے ڈر جاتا ہوں – حسان احمد اعوان- Hassaan Ahmad Awan

    0

    خواب میں بھی در و دیوار سے ڈر جاتا ہوں
    میں سکونت کے ان آثار سے ڈر جاتا ہوں
    کیا سے کیا خواب مرے دل میں نہاں ہے لیکن
    مسئلہ یہ ہے کہ اظہار سے ڈر جاتا ہوں
    اور تو کچھ بھی مقابل ہو میں ڈٹ جاؤں مگر
    اک تری شوخی گفتار سے ڈر جاتا ہوں
    جس کی آواز فلک چیر ، خدا تک پہنچے
    ایسے لاچار سے بیمار سے ڈر جاتا ہوں
    جیت لیتا ہوں میں دل پھینک کے بازی اپنی
    کون کہتا ہے کہ میں ہار سے ڈر جاتا ہوں
    بوجھ پڑتا ہے طبیعت پر خزاں دیکھوں تو
    ورق الٹے تو میں اخبار سے ڈر جاتا ہوں
    وہ محبت ہو کہ ہو دشمنی کرتا نہیں میں
    میں کہ حسان ہر آزار سے ڈر جاتا ہوں

    حسان احمد اعوان

     

    وہی نکتہ مرے خیال میں ہے- حسان احمد اعوان- Hassaan Ahmad Awan

    0
    وہی نکتہ مرے خیال میں ہے
    جو ازل سے خود اپنے حال میں ہے
    اک مُحبت عروج ہے جس پر
    اک مُحبت ابھی زوال میں ہے
    چاہتا ہوں کہ لوگ پہچانیں
    کچھ حقیقت جو خد وخال میں ہے
    ہم بجا شک میں مبتلہ ہیں میاں
    دن سرابوں کے سبز جال میں ہے
    عشق لذت کا تذکرہ شاید
    ہجر کے اولیں ملال میں ہے
    اشک در اشک کھل گئی مجھ پر
    جتنی لذت ترے ملال میں ہے
    سب ہیں اپنے تئیں جنوں زادے
    قیل میں ہے کوئی نہ قال میں ہے
    کر رہا ہوں کشید مَیں حسان
    چاشنی جو تِرے خیال میں ہے
    حسان احمد اعوان