ستم گر یہ کیسی سزا چل رہی ہے
حیات اب بہ سُوئےِ قضا چل رہی ہے
وہ ہر لحظہ مشقِ ستم کر رہے ہیں
یہاں اب بھی رسمِ وفا چل رہی ہے
رہوں جامِ قُربت سے محروم کیونکر
مری چشم تیری ادا چل رہی ہے
مریضِ مُحبت رہا ہوں ازل سے
تری دید اب بھی دوا چل رہی ہے
یونہی بد گماں ہوں میں اپنے عمل پر
مرا فعل، تیری رضا چل رہی ہے
ہے لگتا تری زُلف میں خَم سا آیا
تبھی یہ معطر فضا چل رہی ہے
حسان احمد اعوان