ہجر کے درمیان گزری ہے
زندگی امتحان گزری ہے
میری تقدیر میں لکھی نہیں تھی
آج جو مجھ پہ آن گزری ہے
باقی پل میں گزر گئے جاں سے
لیکن اس دل سے جان گزری ہے
کیسے گزری ہے زندگی اپنی
کیسے منظر سے شان گزری ہے
آن گزری ہے دیکھتے مجھ کو
کچھ نہ کچھ دل میں ٹھان گزری ہے
تیر نے کیا کماں سنبھالی تھی
تیر سے کیوں کمان گزری ہے
عمر گزری ہے اس طرح میری
جیسے مجھ سے چٹان گزری ہے
میں اسی گرد کا بگولا ہوں
جو پسِ کاروان گزری ہے
دل کو قاصد بنا لیا حسان
شاعری ترجمان گزری ہے
حسان احمد اعوان