Monday, December 23, 2024
More
    HomeMy Poetryلفظ خاموش ترازُو سے نکل آیا ہے

    لفظ خاموش ترازُو سے نکل آیا ہے

    لفظ خاموش ترازُو سے نکل آیا ہے

    اور معنی بھی نیا ھُو سے نکل آیا ہے

    سوچ میری کبھی آزاد سفر کرتی تھی

    اب تو زندان پکھیرُو سے نکل آیا ہے

    کتنی آزادی سے اب لوگ اُسے سوچتے ہیں

    جیسے وہ فِکرِ مَن و تُو سے نکل آیا ہے

    دل میں پیوست اگر ہو تو مزہ آ جائے

    تیر جو حلقہِ اَبرُو سے نکل آیا ہے

    خاک سے خوُشبوئیں نکلی تھیں سرِ دشت کبھی

    اور اب پُھول بھی خُوشبُو سے نکل آیا ہے

    تھوڑی محنت تو ہمیں کرنا پڑی ہے حسان

    یہ جو دریا سا لَبِ جُو سے نکل آیا ہے

    حسان احمد اعوان

    LEAVE A REPLY

    Please enter your comment!
    Please enter your name here

    Advertisingspot_img

    Popular posts

    My favorites

    I'm social

    0FansLike
    0FollowersFollow
    0FollowersFollow
    0SubscribersSubscribe