عشق آزار کر دیا جائے
سب کو بیدار کر دیا جائے
کر کے آباد ہجرِ یاراں میں
دل کو مختار کر دیا جائے
اِس طرف کے نہیں جو لوگ انہیں
اب کے اُس پار کر دیا جائے
دام دینے لگے جو مٹی کے
اُس کو انکار کر دیا جائے
آؤ نکلیں جنوں کے سائے سے
یہ نہ ہو وار کر دیا جائے
ایسے کچھ رہنما میسّر ہوں
نیک کردار کر دیا جائے
نیند آنکھوں تک آنے والی ہے
خواب تیّار کر دیا جائے
چاہتا ہوں کہ اب مجھے حسّان
مجھ سے بیزار کر دیا جائے
حسان احمد اعوان