میاں شعور کی دولت ہی کام لائی گئی
ضمیر بیچ کے دنیا نہیں کمائی گئی
خدا کا شکر مرے حوصلے جوان رہے
وگرنہ راہ میں دیوار تو اُٹھائی گئی
کسی کو جلوہ کسی کو وصال بخشا گیا
ہمارے دل کو حَسَد کی سزا سنائی گئی
پھر اُس کے بعد تو خوشبو نہیں لگائی کبھی
تمھارے لمس سے یوں دوستی نبھائی گئی
تمام عُمر تجھے چاہتے رہے ہم لوگ
ہمیں تو ایک محبت ہی بس پڑھائی گئی
یہ ہجر ہے کہ خزانے سے ہاتھ اُٹھتا ہے
یہ تو گیا کہ مری عمر کی کمائی گئی
حسان احمد اعوان