اب ہوں آزاد میں اس قبضہ جاں سے نکلا
جیسے اُڑتا ہو کوئی تیر کماں سے نکلا
تم سمجھتے ہی کہاں ہو سخن آرائی کو
میرا ہر شعر مری طرزِ بیاں سے نکلا
شیخ آتا ہے ادھر سے جہاں میخانہ ہے
عین ممکن ہے کہ ہو یہ بھی وہاں سے نکلا
ایک ہی صف میں نظر آتے ہیں دونوں مجھ کو
ہے ترا حُسن مرے حُسنِ بیاں سے نکلا
احمد اڑتی ہے تری گرد گلی کوچوں میں
ہو گیا خاک تُو جب کوچہِ جاں سے نکلا
حسان احمد اعوان