کچھ عقل بھی رکھتا ہے جنوں زاد ہمارا
اب عشق میں پاگل نہیں فرہاد ہمارا
خیموں سے اُبھرنے لگیں ماتم کی صدائیں
اور ہم سے خفا ہو گیا سجاد ہمارا
اِک پھول کے کھلنے سے بہت پہلے جہاں میں
اِک خواب ہوا جاتا ہے برباد ہمارا
اِک سوچ کہ محدود ہی رہتی ہے رہے گی
اِک دل کا پرندہ ہے کہ آزاد ہمارا
یہ بزمِ سُخن ساز سُخن ہی کی تگ و تاز
سُنتا ہےکہاں پر کوئی ارشاد ہمارا
یہ تلخیء قسمت ہے کہ سانسوں کی عطا ہے
آہوں سے بھرے دامنِ فریاد ہمارا
ہم قافیہ پیما نہیں شاعر ہُوئے حسان
اور میر تقی میر ہے اُستاد ہمارا
حسان احمد اعوان