کُچھ تو ایسے ہیں کہ جو پیار نہیں کرتے ہیں
ہائے وہ لوگ جو اظہار نہیں کرتے ہیں
غم کی زنجیر نے بچے کو یہ پیغام دیا
عشق کو صبر سے بیزار، نہیں کرتے ہیں
رُوبرو ہو کے کہیں بیٹھتے ہیں ہم دونوں
دیکھتے رہتے ہیں گُفتار نہیں کرتے ہیں
بات دیوار سے ہو کر بھی نکل جاتی ہے
بات کوہم پسِ دیوار نہیں کرتے ہیں
تُم جو کہتے ہو کہ میں آئنہ دیکھوں جا کر
بات یُوں صاحبِ کردار نہیں کرتے ہیں
یہ محبت تو وظیفہ ہے ہمارا ورنہ
کام کوئی بھی لگاتار نہیں کرتے ہیں
تُم نصیحت پہ نصیحت ہی کیے جاتے ہو
یار ایسے کبھی غم خوار نہیں کرتے ہیں
تیری رحمت ہی تو موضوعِ سُخن رہتی ہے
ذکرِ توبہ یہ گنہگار نہیں کرتے ہیں
سامنے آتے ہیں بس اپنی کہانی لے کر
کُچھ نیا کام اداکار نہیں کرتے ہیں
کامیابی سے بہت دور پڑے ہیں جو لوگ
نیند میں خواب کو بیدار نہیں کرتے ہیں
ہجر سے اس کو جِلا ملتی ہے حسان سو ہم
عشق میں وصل سے ہم وار نہیں کرتے ہیں
حسان احمد اعوان