چشمِ خواہش سے بھی کچھ حُسن شناسائی ہو
کچھ تو اے جانِ غزَل دل کی پذیرائی ہو
تم نے تو آنکھ ملانا ہے ملاتے رہنا
کونسا میکدہ کھولا ہے کہ رسوائی ہو
بہتی خوشبو کا نیا لَمس سمجھ میں آیا
جوں صبا کوچہءجاناں سے گزر آئی ہو
یہ جو اب راکھ ہوئے جاتے ہیں یادوں کے چراغ
اِک سبب ہو بھی تو سکتا ہے کہ تنہائی ہو
کیوں نہ اب میری نظر ُدور کے جلوے دیکھے
تُم مری جان ، مرا منبعِ بینائی ہو
حسان احمد اعوان