وہی نکتہ مرے خیال میں ہے
جو ازل سے خود اپنے حال میں ہے
اک مُحبت عروج ہے جس پر
اک مُحبت ابھی زوال میں ہے
چاہتا ہوں کہ لوگ پہچانیں
کچھ حقیقت جو خد وخال میں ہے
ہم بجا شک میں مبتلہ ہیں میاں
دن سرابوں کے سبز جال میں ہے
عشق لذت کا تذکرہ شاید
ہجر کے اولیں ملال میں ہے
اشک در اشک کھل گئی مجھ پر
جتنی لذت ترے ملال میں ہے
سب ہیں اپنے تئیں جنوں زادے
قیل میں ہے کوئی نہ قال میں ہے
کر رہا ہوں کشید مَیں حسان
چاشنی جو تِرے خیال میں ہے
حسان احمد اعوان