میں یونہی کہاں دیدہء حیران سے نکلا
اِک راہ بناتے ہوئے امکان سے نکلا
تا عمر علاقہ رہا تجھ حسن سے مجھ کو
اِک تیرا تعلق مرے دیوان سے نکلا
جھوٹی کوئی شہرت ہی مجھے راس نہ آئی
میں اِس لیے اِس حلقہءپہچان سے نکلا
میں نے جو کہیں رکھا تھا اور بھول گیا میں
آخر کو وہی دل ، دلِ مہمان سے نکلا
ہاتھوں میں لیے سوچ میں گُم ہوں کہ سرِ دشت
یہ تار بھلا کیسے گریبان سے نکلا
وہ نقش عجب نقش تھا جو خود دمِ تخلیق
یاقوت میں دیکھا کبھی مرجان سے نکلا
مدھم سی خموشی مرے وجدان میں آئی
اور تیز اندھیرا مرے سامان سے نکلا
اِک بار مِلا جو بھی وہی بس گیا اس میں
یہ ظرف یقیناً دلِ حسان سے نکلا
حسان احمد اعوان