لفظ خاموش ترازُو سے نکل آیا ہے
اور معنی بھی نیا ھُو سے نکل آیا ہے
سوچ میری کبھی آزاد سفر کرتی تھی
اب تو زندان پکھیرُو سے نکل آیا ہے
کتنی آزادی سے اب لوگ اُسے سوچتے ہیں
جیسے وہ فِکرِ مَن و تُو سے نکل آیا ہے
دل میں پیوست اگر ہو تو مزہ آ جائے
تیر جو حلقہِ اَبرُو سے نکل آیا ہے
خاک سے خوُشبوئیں نکلی تھیں سرِ دشت کبھی
اور اب پُھول بھی خُوشبُو سے نکل آیا ہے
تھوڑی محنت تو ہمیں کرنا پڑی ہے حسان
یہ جو دریا سا لَبِ جُو سے نکل آیا ہے
حسان احمد اعوان