سوچ میں کیسے کوئی ڈھنگ نیا آتا ہے
دل کی دُنیا میں اگر رنگ نیا آتا ہے
پہلی اِک موج کنارے سے جو ٹکراتی ہے
دوسری موج میں تب اَنگ نیا آتا ہے
میں کہ دریا ہوں جہاں قحط پڑا ہو تو وہاں
میرے مُڑ جانے سے آہنگ نیا آتا ہے
کج نظر سوچ کو محدود کیے رکھتے ہیں
ایک ہٹتا ہے تو اِک زَنگ نیا آتا ہے
کُچھ تراکیب مری اپنی بنائی ہوئی ہیں
میرے الفاظ میں فَرہَنگ نیا آتا ہے
حسان احمد اعوان