روح تقدیر کے آرے پہ پڑی رہتی ہے
سانس بھی جسم کنارے پہ پڑی رہتی ہے
شعر الہام نہیں ہوتا ہے ہر دم مُجھ کو
شاعری وقت کے دھارے پہ پڑی رہتی ہے
دور سے دیکھ کے مدھم نظر آتا ہے مجھے
روشنی جیسے ستارے پہ پڑی رہتی ہے
اپنے مطلب کو بدن میرا جلاتے ہیں یہ دوست
جیسے اِک سیخ اَنگارے پہ پڑی رہتی ہے
طُول بیماری کو دیتی ہیں دوائیں ساری
اور صحت بھی گُزارے پہ پڑی رہتی ہے
یاد آتے ہو تو پھر اشک رواں ہوتے ہیں
اور مری آنکھ اِشارے پہ پڑی رہتی ہے
میرے ملنے سے وہ تجسیم نہیں ہو سکتا
میں ہوں اِک اینٹ جو گارے پہ پڑی رہتی ہے
پہلے کُچھ سال جوانی میں گزر جاتے ہیں
باقی کی عُمر سہارے پہ پڑی رہتی ہے
مجھ کو حسان غزل دور سے یوں دیکھتی ہے
جیسے اِک آنکھ جو پیارے پہ پڑی رہتی ہے
حسان احمد اعوان