خون میں اشک ملانے سے نشہ ٹُوٹتا ہے
اور پھر اس کو بہانے سے نشہ ٹُوٹتا ہے
شعر جس رنگ میں ہوتا ہے اسے ہونے دو
اِس نئے اور پُرانے سے نشہ ٹُوٹتا ہے
کوئی روٹھے تو منانے میں مزہ ہے صاحب
کون کہتا ہے ستانے سے نشہ ٹُوٹتا ہے
آنکھ کو آنکھ پِلائے تو نشہ باقی رہے
ہونٹ سے پیاس بُجھانے سے نشہ ٹُوٹتا ہے
بات کُچھ ایسی کہو جو کہ مرے دل پہ لگے
دوست اِس جھوٹے بہانے سے نشہ ٹُوٹتا ہے
خاک سے میری نئے جسم بناتے رہنا
چاک کو خالی گُھمانے سے نشہ ٹُوٹتا ہے
دھیمی لَو ہو تو مزہ آتا ہے جلنے میں مگر
لَو کو اور بڑھانے سے نشہ ٹوٹتا ہے
حسان احمد اعوان