خواب میں بھی در و دیوار سے ڈر جاتا ہوں
میں سکونت کے ان آثار سے ڈر جاتا ہوں
کیا سے کیا خواب مرے دل میں نہاں ہے لیکن
مسئلہ یہ ہے کہ اظہار سے ڈر جاتا ہوں
اور تو کچھ بھی مقابل ہو میں ڈٹ جاؤں مگر
اک تری شوخی گفتار سے ڈر جاتا ہوں
جس کی آواز فلک چیر ، خدا تک پہنچے
ایسے لاچار سے بیمار سے ڈر جاتا ہوں
جیت لیتا ہوں میں دل پھینک کے بازی اپنی
کون کہتا ہے کہ میں ہار سے ڈر جاتا ہوں
بوجھ پڑتا ہے طبیعت پر خزاں دیکھوں تو
ورق الٹے تو میں اخبار سے ڈر جاتا ہوں
وہ محبت ہو کہ ہو دشمنی کرتا نہیں میں
میں کہ حسان ہر آزار سے ڈر جاتا ہوں
حسان احمد اعوان