پیکرِ حُسن بَصَد صِدق و صِفا رکھا ہے
عکس آئینے میں آئینہ نُما رکھا ہے
خود نمائ کو ہی تخلیق کیے سارے جہاں
اور پھر دل میں مرے خود کو بسا رکھا ہے
دعوے جنت کے کیے جاتے ہوصاحب ہر دم
دیکھ لو نامئہ اعمال میں کیا رکھا ہے
فیضِ نسبت سے ہی ممتاز ہو میں لوگوں میں
مُجھ کو اُلفت نے گناہوں سے بچا رکھا ہے
نیند سی نیند ہے سونے نہیں دیتی مجھ کو
خواب سا خواب ہے اور مجھ کو جگا رکھا ہے
میں بھی حسان سخنور ہوں مگر یاروں میں
میرے شعروں نے مجھے سب سے جُدا رکھا ہے
حسان احمد اعوان