تمام سیاروں کو جیسے مہر سے جوڑا ہے
مری جبیں کو ترے سنگِ در سے جوڑا ہے
خدا نے خود کو بظاہر چُھپا کے رکھا ہے
ہمارے دل کو نہ جانے کدھر سے جوڑا ہے
وصال و ہجر کی ترتیب ہی الٹ دی تھی
اِدھر کا سلسلہ اُس نے اُدھر سے جوڑا ہے
خدا نے سادہ قلم سے بنایا ہم سب کو
ترے وجود کو اپنے ہُنر سے جوڑا ہے
کہ چاند بھی تو ترے حُسن کا بھکاری ہے
تمھارے حُسن کو کس نے قمر سے جوڑا ہے
تمام لزتیں دُنیا کے دل میں رکھی ہیں
خدا نے سُکھ کو مگر اپنے گھر سے جوڑا ہے
تمام مِدحَتیں وقفِ بنامِ احمؐد ہیں
تمام ذِکر کو اُس تاجورؐ سے جوڑا ہے
حسان احمد اعوان