آپ کے خواب سے بندھا ہوا ہوں
عکسِ مہتاب سے بندھا ہوا ہوں
تُو مری نیند سی جڑی ہوئی ہے
میں ترے خواب سے بندھا ہوا ہوں
اُس کی آنکھیں پکارتی ہیں مجھے
اور میں آداب سے بندھا ہوا ہوں
لیے جاتی ہے دل کو موجِ ستم
غم کے سیلاب سے بندھا ہوا ہوں
میرا ہر فعل ہے ترا پابند
یعنی میں باب سے بندھا ہوا ہوں
تیرے در سے جُڑا ہوں ایسے کہ
جیسے محراب سے بندھا ہوا ہوں
تیری سنگت پہ ناز ہے حسان
جیسے سُرخاب سے بندھا ہوا ہوں
حسان احمد اعوان