ایسے کُچھ لوگ بھی مٹی پہ اُتارے جائیں
دیکھ کر جن کو خدوخال سنوارے جائیں
ایک ہی وصل کی تاثیر رہے گی قائم
کون چاہے گا یہاں سال گزارے جائیں
آنکھ ہے تیری کہ صُورت کوئی قوسین کی ہے
درمیاں آکے کہیں لوگ نہ مارے جائیں
اِک جُنوں ہے کہ تُجھے پانا ہے دُنیا میں ہمیں
چاہے اس عشق میں ہم لوگ بھی مارے جائیں
ماہی اُس پار کھڑا آپ کی راہ تکتا ہے
آپ تعظیم کریں اور کنارے جائیں
اب مُیسر نہیں کوئی بھی ٹھکانہ ہم کو
تُم بتاؤ کہ کہاں دوست تُمہارے جائیں
چند شعروں کی ضرورت ہے اُنہیں خاطرِ دوست
وہ بَضِد ہیں کہ وہ اشعار ہمارے جائیں
روشنی چاہیے کُچھ دیر زرا اور ہمیں
چاند رُک جائے یہیں اور ستارے جائیں
حسان احمد اعوان