شعر کہتا ہے کرو اپنی نفسیات پہ کام
کرنا پڑ جاتا ہے ہم کو بھی کبھی بات پہ کام
میرے احساس کی شدت کو وہ سمجھے کیسے
اس کو کرنا ہی نہیں آتا ہے جذبات پہ کام
یوں اُبھرتا ہے یہ دن رات کی تاریکی سے
رات بھر جیسے کہ کرتا ہے کوئی رات پہ کام
ان کو خواہش ہی بھلا کیوں ہے بدل جانے کی
جو نہیں کرتے کبھی اپنے ہی حالات پہ کام
خود ہی بکھرے گا یہ خوشبو کی طرح یاد رہے
تم اگر کرتے رہے حرفِ طلسمات پہ کام
میں نے اک عمر گزاری ہے دعا کرتے ہوئے
اے خدا اب تو کرو میری مناجات پہ کام
عمر بڑھتی ہے تو فطرت بھی بدل جاتی ہے
عمر بھر کرتے ہیں ہم اپنی ہی عادات پہ کام
حسان احمد اعوان