آنکھ سے خون بہاؤ تو کہیں نکلے گی
ورنہ یہ ہجر کی تلخی تو نہیں نکلے گی
میل کھاتا ہے ترا چہرہ بھی مہتاب کے ساتھ
آنکھ بھی تیری ستاروں سے قریں نکلے گی
اپنا لہجہ بھی نیا لاؤ نئے قافیے بھی
شعر بھی اپنا کہو گے تو زمیں نکلے گی
سلسلہ جینے کا قائم ہے مرا جس در سے
سانس بھی میری اگر نکلی وہیں نکلے گی
ایک عرصے سے ہی دونوں کی بڑی یاری ہے
روح اب جسم سے نکلی تو حزیں نکلے گی
دیکھ لینا کبھی حسان اگر آنکھ کھلی
زندگی خواب جزیرے کی مکیں نکلے گی
حسان احمد اعوان